Sunday, August 16, 2020

Ghazal/جواب بننے سے پہلے سوال بنتا ہے

 


غزل

جواب بننے سے پہلے سوال بنتا ہے

سوال بننے سے پہلے خیال بنتا ہے


امیرِشہر کی چوکھٹ پہ اپنی ہستی کو

جو بیچتا ہے وہی کوتوال بنتا ہے


یہ میرے ساتھ ہی خانہ خراب اترے ہے

مرے جنوں کا وہی ماہ و سال بنتا ہے


ہر اک جنم میں مجھے برجِ بردبار ملا

یہاں عروج سے پہلے زوال بنتا ہے


کچھ اضطراب کے پتھر شکوک کے ٹیلے

مری زمیں کا یہی اشتمال بنتا ہے


میں ڈوبتے ہوئے سورج کو پیشوا جانا

جسے یمین میں سمجھا شمال بنتا ہے


وہ جستجو میں بھی اتنا کمال دکھلائے

جو گفتگو میں بڑا باکمال بنتا ہے


لیے وہ ہاتھ میں نشتر بتا رہا ہے مجھے

کہ اس کا زخم وجہِ اندمال بنتا ہے


ناصر گوندل

حلقہِ اربابِ ذوق، نیو یارک

آن لایٗن اجلاس

اتوار16/اگست2020