غزل
جو دیکھتا ہوں وہی واقعات لکھتا ہوں
جو سوچتا ہوں وہی ممکنات لکھتا ہوں
جو تو نے پردہ ہٹایا امین ہوں اس کا
پھر اس کے بعد کٹی کیسے رات، لکھتا ہوں
جو روشنائی نہیں تو قلم بھی سوکھا ہے
نیاز مند ہوں مدحِ دوات لکھتا ہوں
جو تیری آنکھ سے ٹپکا ہے میرے پہلو میں
اس ایک قطرے سے میں کایٗنات لکھتا ہوں
ہوا نہیں ہے کوئی معجزہ کہ ذکر کروں
جو ایک آدھ ہوئے حادثات، لکھتا ہوں
مجھے بتایا ہے شاہِ قصور نے جیسے
میں تیری ذات کو اپنی ہی ذات لکھتا ہوں
جو منزلوں کی عنائیات تھیں رقم نہ ہویں
جو راستے میں ہویں مشکلات، لکھتا ہوں
مری زباں میں رکاوٹ سہی قلم میں نہیں
جو بات کہہ نہیں سکتا وہ بات لکھتا ہوں
بپا ہوئی ہے جو صحرائے ذات پر ناصر
خدا گواہ ہے وہی واردات لکھتا ہوں
ناصرگوندل
حلقہِ اربابِ ذوق، نیو یارک
آن لاین اجلاس
اتوار13/ستمبر2020ء
بہت خوبصورت غزل کہی ہے ناصر گوندل صاحب، کیا کہنا۔
ReplyDelete