صناعِ ازل اک الجھن ہے
اجزائے تراکیبِ آدم
جب سارے یہاں پہ حاصل تھے
تو کارگہِ قدرت تو نے
کیوں عرشِ بریں پہ بنوایا
کیوں تو نے خمیرِخاک مرا
اس فرشِ زمیں سے اٹھوایا
تاروں کے پار پہنچوایا
کیوں کچی مٹی گندوائی
مجھ کو اپنے ہاتھ تراشا
سانس کواپنی مجھ میں پھونکا
مجھ سے میرا جوڑ نکالا
پھر مجھ کو پڑھنا سکھلایا
مجھ کو مسند پہ بٹھوایا
اوروں سے سجدہ کروایا
مجھ سے اتنا پیار جتایا
مجھ پہ اک الزام لگا اور
پھرتو مجھ کو رکھ نہ پایا
مجھ کو باہر پھینک گرایا
یہ سب ایک حقیقت ہے یا
یہ سب اک افسانہ ہے
نہ سمجھوں کو سمجھانے کی
تاویل ہے، ایک بہانہ ہے
یہ قصہ مری پیدائش کا
تیری ہر صفت سے میری
ہستی کی آرائش کا
اس میں میری سفلانہ
صنفوں کی آلائش کا
اس میری مسلسل خوائش کا
کہ نہ چھوٹے اک موقع بھی
افزائش کا پیمائش کا
اور میری تجسس آمادہ
سوچ سمجھ فہمائش کا
گر سچا ہے تو یوں ہی سہی
پر پھر بھی مجھے صناعِ ازل
درپیش وہی اک الجھن ہے
یہ میرا بت بنوانے سے
اور اس کو توڑ گرانے سے
میں جو بھی کھویا جو پایا
تو کیا کھویاتو کیا پایا؟
اس مٹیالےاور دھتکارے
راندہٗ درگاہ کے ذرے
کل ارض و سما میں پھیلے ہیں
گر خاک پریشاں میری ہے
تو تیرے ہاتھ بھی میلے ہیں
ناصر گوندل
حلقہ اربابِ ذوق، نیو یارک
آن لائن اجلاس
اتوار یکم اگست ۲۰۲۱ء
No comments:
Post a Comment