Sunday, January 26, 2020

On the Subject of Poetry:Merwin/ بہ عنوانِ شاعری

بہ  عنوانِ شاعری

(عزیز فاروق حمید کی نذر)

مری سمجھ میں یہ دنیا نہ آئے گی بابا
وہ جھیل جو ہے کنارے پہ اس گلستاں کے
وہاں پہ اک ہمہ تن گوش اجنبی چہرہ
سنے ہے پن پہ لگے چرخ کی دبی آواز
یہ اور بات کہ پہیہ وہاں نہیں کوئی

بہار ہے دمِ رخصت وہیں پہ بیٹھا ہے
اسی ہی باغ کنارے وہ ہاتھ جیب میں ڈالے
نہ اس کو گریہِ ماضی نہ فکرِ فردا ہے
اسے تو گھومتا پہیہ سنائی دیتا ہے

یہی ہے بات کہ یہ بات کر رہا ہوں میں
وہ یوں کھڑا ہے کہ اس کو یہ فکر ہے بابا

اگر ذرا سی بھی جنبش ہوئی سراپے میں
ذرا سا پیر ہلائے یا سر اٹھائے ذرا
کرے خفیف سی لغزش کچھ اس طرح کا شور
فغانِ درد جو خاموش ہے سنائی بھی دے

اسے یہی ہے پریشاں معاملہ درپیش
وہ ہر طرح سے ہے تیار ان سنی کے لئے

یہ منصفانہ نیہں ہے
دلیلِ گردشِ دوران منصفانہ نہیں

میں بات کرتا ہوں اس کی جو ہاتھ جیب میں ڈالے
اک ایسے چرخے کی آواز سن رہا ہے جو
دہاں پہ ہے بھی نہیں اور گھومتا بھی نہیں

مگر یہ دنیا ہے کیسی مجھے بتائے کوئی
مری سمجھ میں تو بابا نہ آئے گی دنیا

ناصر گوندل
نیو یارک
اتوار26/جنوری
2020


https://merwinconservancy.org/2015/06/poem-of-the-week-on-the-subject-of-poetry/



On the Subject of Poetry

I do not understand the world, Father.
By the millpond at the end of the garden
There is a man who slouches listening
To the wheel revolving in the stream, only
There is no wheel there to revolve.

He sits in the end of March, but he sits also
In the end of the garden; his hands are in
His pockets. It is not expectation
On which he is intent, nor yesterday
To which he listens. It is a wheel turning.

When I speak, Father, it is the world
That I must mention. He does not move
His feet nor so much as raise his head
For fear he should disturb the sound he hears
Like a pain without a cry, where he listens.

I do not think I am fond, Father,
Of the way in which always before he listens
He prepares himself by listening. It is
Unequal, Father, like the reason
For which the wheel turns, though there is no wheel.

I speak of him, Father, because he is
There with his hands in his pockets, in the end
Of the garden listening to the turning
Wheel that is not there, but it is the world,
Father, that I do not understand.

–W. S. Merwin, from his book The Dancing Bears




Sunday, January 19, 2020

وہ گھڑی Poem









وہ گھڑی
(عزیز  اور دیرنہ دوست  ڈاکٹر ا ویس رشید کے حکم کی تعمیل میں)
ؑ
تمنا ہے مری جب بھی
وہ جانے کی گھڑی آئے
میں بولوں لے چلو مجھ کو
یہاں اب سانس رکتی ہے
میں اس سے اب  زیادہ 
رک نہیں سکتا

مجھے یہ علم ہے جب بھی
بلاوہ آئے گا میرا
یہی بولوں گا مجھ کو
کچھ ضروری کام کرنے ہیں
ابھی میں جا نہیں سکتا

نہ مرنا چاہتا ہوں
نہ بعد از مرگ دوبارہ
میں اس جھنجھٹ میں پڑنا چاہتا ہوں

میں تو بس دیر تک
اک بار سونا چاہتا ہوں

ناصر گوندل
نیو یارک
اتوار19/جنوری2020



Sunday, January 12, 2020

Ghazal راج کنور تو راج کرے گا





غزل

راج کنور تو راج کرے گا وہ تو راج دلارا ہے
راج کا بیٹا اینٹ لگائے وہ قسمت کا مارا ہے

چاہے اپنے حق میں تم کئی لاکھ دلیلیں لے آوٗ
جس کے ہاتھ میں لاٹھی ہو گی اس کا چاند ستارہ ہے

آج میری اوقات نہیں ہے کل بھی کوئی خاص نہ تھی
پھر بھی اک نسبت کے ناتے دل کو ایک سہارا ہے

گھر کو چھوڑنے والے کو پھر بستی نے اپنایا نا
چاہے اس نے سود ملا کے دونا قرض اتارا ہے

اپنے آپ سے سچا رہنا میں نے تم سے سیکھا ہے
جھوٹ نگر میں میرے بچو یہ احسان تمہارا ہے

مستقبل کو گروی رکھ کے ماضی کو چمکا لینا
میں اس کو جیسے بھی دیکھوں اس میں صاف خسارہ ہے

گھر میں کوئی رہتا ہو تو لوگ بھی ملنے آتے ہیں
کل جس آنگن سورج اترے آج وہیں اندھیارا ہے

ایک ہی کیفیت میں ہوں میں محفل ہو یا تنہائی
جو بھی وقت گزارا ہے وہ تیرے ساتھ گزارہ ہے

ناصر گوندل
حلقہٗ اربابِ ذوق، نیو یارک
اتوار12/جنوری2020