کرونا کے دولہے
ہر اک گھر میں ڈر کے مقید ہو ا ہے
گلی میں ہے رقصاں ہلاکت کی دیوی
گھنی خامشی میں
ابھرتی ہوئی سایٗرن کی صدایئں
وہ صورِ سرافیل ایسے اٹھایئں
کہ باراتِ ماتم
کرونا کے دولہوں کو بیمار گھر میں
فریبِ شفا کی دلہنیا ملانے
چلے جا رہی ہے
جہاں منتظر ہیں
معالج پرستار
نرسیں معاون
کفن کو لپیٹے ہوئے یہ مسیحا
بخاطر مدارت
کرونا کے دولہوں کو ہاتھوں میں لیں گے
دلوں کی ہو دھڑکن تپش ہو بدن کی
اکھڑتا ہوا سانس چہرے کی رنگت
رگوں کا تناوٗ نظر کا بہاوٗ
علاماتِ کل کا حسابِ مکمل
بتائے گا سطحِ مدارات کیا ہو
نقابِ دہن ہو ہا ٹیکوں کے گجرے
لہو سے بھری بوتلوں کی سبیلیں
مشینوں کی رہٹی میں دم کا ہنڈولا
یا طفلی دلاسہ
ہر اک طرح ان کا سواگت کریں گے
انہیں سانس لینے کی امید دیں گے
جہاں رشتہِ خوں بوجہِ ہزاراں
ہوا منقطع سرحدِ ہسپتالاں
رہے گا وہ مہماں یہاں پہ اکیلا
یہی اس کے خادم یہی اس کا کنبہ
گر اپنوں سے ان کے کوئی بات ہو گی
انہیں کے وسیلے ملاقات ہو گی
یہی رابطے کا مسبب بنیں گے
یہی ٹیلی فون آپریٹر بنیں گے
یہ اولادِ مریم
مسیحانِ حاظر
جلا دے نہ پایئں متاثر زدوں کو
مگر پھر بھی مایوس ہونے نہ دیں گے
جو بیمار گاہ سے روانہ ہیںشہرِ خموشاں کی جانب
کوئی ان کا اپنا
انہیں بوسہِ الوداع ثبت کرنے
کو ناں آ سکے گا
یہی طب قبیلہ انہیں وقتِ آخر
حضر کے کواڑوں سے
ر خصت کرے گا
مسیحانِ امروز ایسے بھی ہیں جو
کئی اپنے ہاتھوں میں میخیں گڑائے
صلیبوں کو اپنے ہی کندھے اٹھائے
اسی قافلے کا ہراول بنیں ہیں
کرونا کے دولہوںکی باراتِ ماتم
جو بیمارخانے سے ملکِ عدم کو
چلے جا رہی ہے
ناصر گوندل
حلقہِ اربابِ ذوق نیو یارک
آن لایئن اجلاس
اتوار ۲۶ اپریل ۲۰۲۰ ء
۳ رمضان ۱۴۴۱ھ
No comments:
Post a Comment