اک صوفیانہ غزل
میں اک ایسی جگہ پہ آ گیا ہوں کوئی جلدی کوئی عجلت نہیں ہے
مجھے اس بات کی حیرانگی ہے مجھے اس بات پہ حیرت نہیں ہے
زمیں دورانِ گردش رک گئی ہے کہ چلتا وقت جیسے تھم گیا ہے
بس اک رفتار پہ ٹھہراوٗ ہے یہ اور اس ٹھہراوٗ کی مدت نہیں ہے
میں کامل ہو گیا ہوں سوچتا تھا مکمل ہوں نہیں یہ جانتا ہوں
مکاں سے لامکاں تک آ گیا تھا مگر اس لامکاں کی چھت نہیں ہے
مجھے معلوم یہ ہونے لگا ہے یہ قصہ دائرے میں گھومتا ہے
ہر اک نقطہ یہاں منزل نما ہے یہاں پہ دوری و قربت نہیں ہے
بہت تھا جس کو تھوڑا جانتا تھا ذرا میں اور ہونا چاہتا تھا
میں پہلے سے بہت کم ہو گیا ہوں مگر اب خواہشِ کثرت نہیں ہے
میں انگاروں پہ چل کے آ چکا ہوں کئی آتشکدے بھگتا چکا ہوں
سہی ہے گرمیِ ملتان میں نے کوئی اب حسرتِ حدت نہیں ہے
نکل آیا ہوں ضعفِ آگہی سے خمارِ بے خودی کو واپسی ہے
بہت دانشکدے میں ہے ولیکن وہاں دلدار کی صحبت نہیں ہے
مرے جذبات میں شدت نہیں ہے مرے افکار میں وسعت نہیں ہے
مرے الفاظ میں ندرت نہیں ہے مری کوئی وجہِ شہرت نہیں ہے
غزل تیری کہاں تک جا سکے گی مضامیں باندھتا ہے مستعاری
ردیفِ دقیانوسی قافیہ بھی ہے ایسا کہ کوئ جدت نہیں ہے
ناصر گوندل
حلقہِ اربابِ ذوق نیو یارک
پہلا آن لائن اجلاس
اتوار مارچ ۲۹، ۲۰۲۰ء
No comments:
Post a Comment