غزل
پیدا ہوا بےوقت تو مارا گیا بےوقت
جو وقت تھا وہ سارے کا سارا گیا بےوقت
جب تک کھڑا رہا مری شنوائ نہ ہوئ
اور جب چلا گیا تو پکارا گیا بےوقت
وہ جرمِ مفلسی کی سزا کاٹنے چلی
دلہن بنا کے کو سنوارا گیا بےوقت
نا آشنا تھا گردشِ گردوں سے باغباں
کلیوں کو آندھیوں میں نکھارا گیا بےدقت
پہلے دلوں میں فاصلہ پیدا کیا گیا
اور پھر رقابتوں کو ابھارا گیا بےوقت
اس سے کے بیشتر کوئ پڑھ لے ، اسے جلا
تجھ پہ جو اک صحیفہ اتارا گیا بےوقت
ناصر گوندل
نیو یارک
اتوار25/اکتوبر2020ء
No comments:
Post a Comment