مجھے ملنے نہیں آنا
پرانا خط تمیارا
ادھ کھلا
پہنچا ہے اب مجھ تک
کیٗ برسوں پرانی مہر ہے اس پر
ـْْ’’تمہارے شہر میں کچھ دن مجھے رکنا پڑے گا
ٖضروری کام ہیں ایسے
یہاں آئے بنا جو ہو نہیں سکتے
خبر کر دے تمہیں کوئی
تو دو سے چار نہ کرنا
نظر انداز کر دینا
مجھے ملنے نہیں آنا
’’بہت چرچا رہا ہےکہ تعلق تھا کوئ ہم میں
فسانے بن چکے ہیں
اور کتنے راویوں نے
سند ہونے کے دعوے کر دیے ہیں
کوئی تردید کوئ تبصرہ اب ہو نہیں سکتا
یہاں انکار اور تردید کے اکثر بیانوں کو
صحیح سمجھا نہیں جاتا
کوئ پوچھے اگر تم سے
کوئ انکار نہ کرنا
کوئ اقرار نہ کرنا
نظر انداز کر دینا
مجھے ملنے نہیں آنا
ـ’’بہت کچھ ہو چکا ہے
اور جو لمحے لٹائے جا چکے ہیں
اب ان کی بازیابی کا
ہر اک موقع گنوایا جا چکا ہے
اسی گم گشتگی میں
خیالِ رفتگاں کوئ
تمہارے سامنے آئے
اسے رکنے کو نہ کہنا
کوئ اصرار نہ کرنا
نظر انداز کردینا
مجھے ملنے نہیں آنا‘‘
مرے ہاتھوں میں یہ کاغذ
مجھے کچھ کہہ رہا ہے
مگر جو کہہ رہا ہے
وہ نہ کرنے کا زمانہ جا چکا ہے
یہاں آ کے وہ واپس جا چکا ہے
یہی وہ سوچتا ہو گا
میں اس کی بات نہ سمجھا
نہ اس کی ان کہی جانا
کوئی تکرار کی میں نے
نہ استفسار کی میں نے
نطر انداز کر ڈالا
اسے ملنے نہیں آیا
ناصر گوندل
حلقہِ اربابِ ذوق، نیو یارک
آن لاین اجلاس اتوار3/جنوری2021ء
No comments:
Post a Comment