غزل
تیرے گھر کا پتہ نہیں بھولا
سدرۃ المنتہیٰ نہیں بھولا
کاش اک دن یہ کہہ سکوں میں بھی
مجھ کو میرا خدا نہیں بھولا
وہ سکھی ہے تونگری میں جو
شدتِ ابتلا نہیں بھولا
جاتے جاتے پلٹتی نظروں سے
وہ تیرا دیکھنا نہیں بھول
دوش اپنا رہا نہ یاد مجھے
پھر بھی میں آپ کا نہیں بھولا
منزلوں کا مغالطہ بھی ہے
میں فقط راستہ نہیں بھولا
چونکہ اپنا تھا فایٔدہ اس میں
اس لیٔے آپ کا نہیں بھولا
یاد رکھنا جسے اذیّت تھی
میں وہی واقعہ نہیں بھولا
ایسے لگتا تھا بھول جائے گا
ہے عجب ماجرہ نہیں بھولا
عدلِ گم گشتہ کو خبر کر دو
بے زباں دیکھنا نہیں بھولا
ناصر گوندل
حلقہِ اربابِ ذوق، نیو یارک
آن لایٔن اجلاس
اتوار،۳۱ مئی، ۲۰۲۰ء
No comments:
Post a Comment