واپسی
احمد سلمان کی نذر
گاؤں سے جو شہر گیا تھا
آج وہ واپس آیا ہے
اس دن جب وہ شہر گیا تھا
ہاتھ میں اس کے
کچھ زیادہ سامان نہیں تھا
اک کپڑوں کا بکسا تھا
بکسے میں کچھ کاغذ تھے
آنکھ میں سپنا
جیب میں زیور
اک رومال میں گانٹھے تھے
اس گاؤں کے اکثر کوٹھے کچے تھے
بجلی آنے والی تھی
لکڑی کے دروازوں پہ
بے قفلی زنجیریں تھیں
اس گاؤں کا ہر باشندہ
اس کے نام سے واقف تھا
اس دن اس کو رخصت کرنے
اس کی گلی کی ہر چوکھٹ پہ
پیار بھری آشائیں تھیں
سنگھی ساتھی پکی سڑک تک
اس کے ساتھ چلے آئے تھے
سولنگ اوپر ٹانگے گاڑی
لاری اڈے آئی تھی
آج وہ واپس آیا ہے
کاندھوں پہ اک بیگ ہے لٹکا
سونےکی زنجیر گلے میں
انگلی پر انگوٹھی ہے
جیب میں بٹوا اور رومال ہیں کاغذ کے
اور آنکھوں پر عینک ہے
اپنا گاؤں ڈھونڈ رہا ہے
جس جاہ اس کا گاؤں تھا
آج وہاں پر
شہر نما اک بستی ہے
کچا ایک مکان نہیں
پکا ہر اک کوٹھا ہے
ہر گھر آگے اونچے لمبے
گیٹ لگے ہیں لوہے کے
اور گیٹوں پہ تالے ہیں
اس بستی کے اکثر چہرے
نہ جانے پہچانے ہیں
اور نہ ہی انجانے ہیں
اس بستی کے کونے پر
چھوٹی ایک پہاڑی پر
جس میں جھنڈ تھے شیشم کے
قبرستان پرانا ہے
جوہڑ جس کا سوکھ چکا ہے
کچی پکی قبروں پر
پتھر نام بتاتے ہیں
کچھ جانے پہچانے ہیں
اس کو دعائیں دینے والے
اس کوچے کے باسی ہیں
جس جاہ شاید بیلا تھا
آج وہاں پہ باڑ لگی ہے
اپنی گلی وہ ڈھونڈ رہا ہے
جس منزل پہ پہنچ گیا ہے
اس کا رستہ پوچھ رہا ہے
چوک ہے اک بازار لگا ہے
مسخ شدہ اس شہر نما میں
نہ وہ پچھلا گاؤں بچا ہے
نہ وہ آدھا شہر بنا ہے
یوں لگتا ہے اس کا گاؤں
جس کو پیچھے چھوڑ گیا تھا
وہ بھی شہر کو چل نکلا ہے
ناصر گوندل
حلقہِ اربابِ ذوق، نیو یارک
اتوار، ۱۰ اپریل، ۲۰۲۰ء
No comments:
Post a Comment