Friday, March 20, 2015

"One Of These Days" by Gabriel García Márquez/Urdu Translation

 

"One Of These Days" by Gabriel García Márquez


Halqa Arbab-e-Zauq NY had a session on Marquez last weekend. I attemtped to translate one of his short stories in Urdu.

It is the story of a dentist, who loves what he does, is apparently not that busy but would rather not attend to the Mayor. Internal conflict between the healer and the rebel is cleverly portrayed.
His signature mark is attention to details and inner feelings.

English translation can be viewed at:
http://www.classicshorts.com/stories/ootdays.html
 
ایسا ہی ایک دن

سوموار کی صبح گرم اور خشک تھی - آؤریلیو ایسکووار ماہر دنداں بلا ڈگری صبح سویرے اٹھنے والا شخص تھا اور چھ بجے مطب پہنچ چکا تھا - اس نے چند مصنوئی داںت جو ابھی تک پلستر کے سانچے میں آویزاں تھے شیشے کے کیس سے نکالے اور مشت بھرے اوزار میز پرلمبائی کی نسبت ایسے سجاۓ کے جیسے نمائش لگی ہو - اس نے بغیر کالر کے ایک لکیر دار کرتا پہنا ہوا تھا جو طلائی بٹنوں سےگلے تک بند تھا - اس کی پتلون سسپنڈرز کی بدولت صحیح مقام پہ معلق تھی - اس کا بدن دبلا اور تنا ہوا تھا اور اس کے دیکھنے کا انداز ماحول سے مطاقبت نہ رکھتا تھا جیسے کے ایک بہرہ دیکھ رہا ہو -
میز پہ سامان آراستہ کرنے کے بعد اس نے اپنی کام کرنے والی کرسی کی طرف ڈرل کھینچی اور مصنوئی دانتوں کو چمکانے کے لیے بیٹھ گیا -ایسا لگتا تھا کہ وہ سوچنے کی ضرورت سے بےنیاز ہو کر کام کر رہا تھا مگر وہ باقاعدگی سے لگا رہا اور اکثر دفعہ ضرورت کے بغیر ڈرل کو پاؤں سے پمپ کرتا رہا -
آٹھ بجے کے بعد وہ کچھ دیر کے لیے آسمان کو دیکھنے کے لیےکھڑکی کے پاس رکا - پڑوس کی چھت کی پر دو اداس گدھ سستا رہے تھے - وہ اس خیال سے واپس کام پر لگ گیا کہ دوپہر تک بارش پھر لگ جاۓ گی - اس کے گیارہ سالہ بیٹے کی چیرتی آواز نے اس کا دھیان منتشر کر دیا -
'پاپا'
'کیا؟'
'میئر پوچھ رہا ہے کہ آپ اس کا دانت نکال دو گے ؟'
'اسے کہہ دو کہ میں یہاں نہیں ہوں '-
وہ سونے کا دانت چمکا رہا تھا - اس نے اسے بازو کی حد تک اٹھایا اور آنکھیں نیم وا کر کہ اس کا معائینہ کرنے لگا -اس کا بیٹا برابر کی انتظارگاہ سے پھر چیخا -
'وہ کہہ رہا ہے کہ آپ ادھر ہی ہو کیونکہ وہ آپ کو سن سکتا ہے '
دندان ساز دانت کا معائینہ کرتا رہا - کام ختم کر چکنے کے بعد اس نےدانت کو میز پر رکھا اور بولا -
'کیا خوب ہے "
اس نے ڈرل دوبارہ چالو کی -اور ایک گتے کے ڈبے سے جہاں وہ ادھورے منصوبے جمع رکھتا تھا ایک برج کے کئی پرزے نکالے اور سونا پالش کرنے لگا -
'پاپا'
'کیا؟'
اس کے چہرے کا تاثر تبدیل نہیں ہوا تھا -
'وہ کہہ رہا ہے کہ اگر آپ نے اس کا دانت نہ نکالا تو وہ آپ کو گولی مار دے گا '
ہڑبڑاے بغیر انتہائی سکون کے ساتھ اس نے ڈرل کے پیڈل کو روکا، اسے اپنی کرسی سے ہٹایا اور میز کے نچلے دراز کو پورا کھولا - روالور وہاں موجود تھا -
'ٹھیک ہے ' اس نے کہا - 'اسے کہو کہ اندر آ جاۓ اور مجھے اڑا دے '-
اس نے کرسی کو دروازے کی مخالف سمت میں گھمایا - اس کا ہاتھ دراز کی نکر پہ تھا - مئیر دروازے سے نمودار ہوا -اس کے چہرے کا بایاں حصہ شیو شدہ تھا مگر دایاں حصہ سوجا ہواتھا اوراس پہ پانچ دن کی داڑھی تھی -
دندان ساز کو اس کی آنکھوں میں کئی راتوں کی بےچینی دکھائی دی. اس نے دراز کو اپنی انگلیوں کی پوروں سے بند کر دیا اور نرمی سے کہا :
'بیٹھ جاؤ '
'صبح بخیر ' مئیر بولا -
'بخیر '
آلات جراحی پانی میں ابل رہے تھے مئیر نے اپنا سر کرسی پہ ٹیکا -اسے کچھ سکون محسوس ہوا - اگرچہ اس کی سانسیں ٹھٹھری ہوئی تھیں -اس نے ماحول کا جائزہ لیا - یہ ایک غریبانہ دفتر تھا -ایک پرانی لکڑی کی کرسی، پاوں سے چلنے والی ڈرل،شیشے کے کیس میں مٹیالی بوتلیں - کرسی کے سامنے کھڑکی اور اس کے اوپر کندھے تلک کپڑے کا پردہ -جب اس نے دندان ساز کو آتے دیکھا تو اس نے اپنی ایڑیاں کھینچیں اور منہ کھول دیا -
آریلیو ایسکووار نے اس کا منہ روشنی کی طرف کیا -سوجے ہوۓ جبڑے میں بیمار دانت کا معائینہ کرنے کے بعد اس نے مئیر کا منہ اپنی انگلیوں کے ایک محتاط دباؤ کے ساتھ بند کیا-
'یہ کام سن کیے بغیر ہو گا ' اس نے کہا -
'وہ کیوں؟'
'اس لئیے کہ یہ پیپ شدہ ہے '
مئیر نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا 'ٹھیک ہے' اور مسکرانے کی کوشش کی -
دندان ساز نے مسکراہٹ کا جواب مسکراہٹ سے نہ دیا- وہ ابلے ہوے اور جراثیموں سے پاک آلات کی طشتری کام کرنے والی میز پہ لایا -کسی عجلت کے بغیر انہیں ایک ٹھنڈے چمٹے کی بدولت نکالا -جوتے کی نوک سے اس نے تھوکدان کا منہ کهولا-اور اپنے ہاتھ دھونے واش بیسن کی طرف چلا گیا - یہ سب کچھ اس نے مئیر کی طرف دیکھے بغیر کیا- لیکن اس دوران مئیر نے اس سے اپنی آنکیں نہ ہٹائیں -
یہ نچلی عقل داڑھ تھی - ماہر دنداں نے اپنے پاؤں پھیلاۓ اور بیمار دانت کو گرم چمٹے سے جکڑا -مئیر نے کرسی کے بازو بھینچے ، اپنی پوری طاقت سے ایڑیاں کسیں ، اسے اپنا پتہ پانی ہوتا لگا ہوا مگر اس نے منہ سے ایک آواز نہ نکالی - دندان ساز نے اپنی کلائی کو جنبش دی- جذبات میں آے بنا سرد مہری سے اس نے کہا -
'اب قائم ہو جاؤ- جو تم نے ہمارے بیس مارے تھے،ان کی قیمت دینے کا وقت آ گیا ہے '
مئیر کو اپنے جبڑے میں ھڈیاں چکنا چور ہوتی محسوس ہویں اور اس کی آنکھیں اشکوں سے بھر گیں -مگر جب تک دانت باہر نہ آیا اس نے سانس روکی رکھا -پھر اس نے اسے اپنے آنسوں کے بیچ سے دیکھا - یہ دانت اسے اپنے درد سے اتنا غیر لگا کہ اسے پچھلی پانچ راتوں کے عذاب کی وجہ سمجھ نہ آئی -
پسینے سے شابور اور ہامپتے ہوے وہ اگالدان پہ جھکا اور قمیض کھولتے ہوے اپنی پتلون کی جیب سے رومال نکالنے لگا - دندانساز نے اسے ایک صاف کپڑا تھمایا اور کہا
'آنسو پونچھ لو'
مئیر نے ایسا ہی کیا- وہ کانپ رہا تھا. جب ڈنٹسٹ اپنے ہاتھ دھو رہا تھا، اس نے اکھڑتی ہوئی چھت پہ مکڑی کا مٹیالا جالا اور اس میں اس کے انڈے اور کچھ مرے ہوے کیڑے دکھائی دیے - ڈنٹسٹ مڑا اور ہاتھوں کو سکاتے ہوے بولا -'اب سو جانا اور نمکین پانی سے غرارے کرنا '-
مئیر اٹھ کھڑا ہوا ' فوجی نخرے سے سلوٹ مارتے ہوے الوداع کہا اور کوٹی کے بندھ بندے بغیر ٹانگیں سیدھی کرتا ہوا دروازے کی طرف چل پڑا -
'بل بھیج دینا ' اس نے کہا -
'تمہیں یا بلدیہ کو'
مئیر نے اس کی طرف دیکھے بغیر دروازہ بند کیا اورپردے کے پار سے بولا -
'سالہ ایک ہی بات ہے '


Sunday, March 1, 2015

Standard Oil Co. (by Pablo Neruda, Canto General, 1940) Urdu Translation

Standard Oil Co. (by Pablo Neruda, Canto General, 1940) Urdu Translation



Halqa Arbab e Zauq NY had a program on the Chilean poet Pablo Neruda. It was a long desire of Baji Nusrat Anwar. 
I attempted to translate one of his poems in Urdu.

For most of the readers, Pablo Neruda needs no introduction. A Nobel laureate, a committed communist, traveler of the world, a colleague of Allende, the voice of the under-privileged and a great poet.

In short what Faiz is to Urdu, Neruda is to the Spanish language and to the world.

Standard Oil is one of the poems in Canto General, his epic work, written in 1940. 

Standard Oil Company , founded by John Rockefeller, was the grandfather of almost all the oil companies of today, including ExxonMobil, Amoco, Chervon and part of BP. In short a perfect example of exploitation par excellence.

I translated it from the English translation. So there must be many nuances of the original language lost due to the intervening language.

There is a good you-tube rendition of the English translation at https://www.youtube.com/watch?v=rFc-afPmrso

Here is the English, translation followed by my Urdu translation. In the end is the original Spanish.

https://revolutionaryfrontlines.wordpress.com/2010/06/26/standard-oil-co-by-pablo-neruda-canto-general/

When the drill bored down toward the stony fissures
and plunged its implacable intestine
into the subterranean estates,
and dead years, eyes of the ages,
imprisoned plants’ roots
and scaly systems
became strata of water,
fire shot up through the tubes
transformed into cold liquid,
in the customs house of the heights,
issuing from its world of sinister depth,
it encountered a pale engineer
and a title deed.
However entangled the petroleum’s arteries may be,
however the layers may change their silent site
and move their sovereignty amid the earth’s bowels,
when the fountain gushes its paraffin foliage,
Standard Oil arrived beforehand
with its checks and it guns,
with its governments and its prisoners.
Their obese emperors from New York
are suave smiling assassins
who buy silk, nylon, cigars
petty tyrants and dictators.
They buy countries, people, seas, police, county councils,
distant regions where the poor hoard their corn
like misers their gold:
Standard Oil awakens them,
clothes them in uniforms, designates
which brother is the enemy.
the Paraguayan fights its war,
and the Bolivian wastes away
in the jungle with its machine gun.
A President assassinated for a drop of petroleum,
a million-acre mortgage,
a swift execution on a morning mortal with light, petrified,
a new prison camp for subversives,
in Patagonia, a betrayal, scattered shots
beneath a petroliferous moon,
a subtle change of ministers
in the capital, a whisper
like an oil tide,
and zap, you’ll see
how Standard Oil’s letters shine above the clouds,
above the seas, in your home,
illuminating their dominions.

Translated by Jack Schmitt


And here is Urdu:


سنگلاخ چٹانوں کے دل سے 
چکریلہ نشتر پار ہوا 
اور پہنچا اس گہرائی تک 
جو خاص تناؤ کے اندر 
اک عرصے سے  خوابیدہ ہے 

جو ہم سے پہلے گزر گۓ 
سو لاکھ ہزاروں سال قبل 
حشرات چرند پرند درند
وہ آبی تھے یا خاکی تھے 
پس گۓ وقت کے دھارے میں 
یہ کیسا کشیدی کھیل ہوا 
اسلاف کا ترکہ تیل ہوا 
اس ڈرل کی نوکیلی نشتر سے 
یہ کسا غبارہ پھٹتا ہے 
اور کالا خون اچھلتا ہے 
برفیلی موم میں ڈھلتا ہے

یہ کھیل محرر خانوں میں 

ایوانوں  میں اور تھانوں میں 
پردے میں خاموشی کے 

اک اور مچلکہ فرد ہوا 
مزدور کا چہرہ زرد ہوا 


---------------------
جو صدیوں سے خوابیدہ تھا 

زیر زمیں شریانوں میں
اس شورش سے بیدار ہوا   
 اس کا جو اظہار ہوا 
یہ معدن کس کا حصہ ہے 
جو اس دھرتی پہ بستا ہے 
یا جو مزدوری کرتا ہے

انصاف کی اس عدالت میں 
یہ فیصلہ ہونے سے پہلے 
خود ایس -او ہے موجود وہاں 
اک ہاتھ میں اس کے ہے چک بک 
اک ہاتھ میں ہے بندوق میاں 
سرکار بھی اس کی سنگت میں 
جب چاہے پناوے ہتھکڑیاں 


-----------------------------
نیو یارک کے اونچے برجوں  پہ 
یہ تخت سجاۓ بیٹھے ہیں 
یہ شکم غفیر مجاور ہیں 
جو زیر لب مسکاتے ہیں 
اور موت کا کھیل رچاتے ہیں 

ہر چیز خرید لے جاتے ہیں 
وہ سنبل ہو یا سندس  ہو
  شیشہ ہو یا بیڑہ ہو 
وہ رہزن ہو یا لیڈر ہو
کوئی چھوٹا موٹا جابر ہو 
یا کاٹے کا ڈکٹیٹر ہو 
یہ سب کا سودا کرتے ہیں 

-------------------------

ہر شخص خریدا جاتا ہے 
رجواڑے میں یا باڑے میں 
قانون کا منتر پڑھتا ہو 
آئین کا جنترکرتا ہو 
وہ دانہ دانہ گنتا ہو 
یا سونا چاندی کرتا ہو 
ہر ایک کہ یہ بیوپاری ہیں 

یہ ایسا سبق پڑھائیں گے 
کہ وردی اسے چڑھائیں گے 
پھر بھائی سے لڑوائیں گے 
سب ان کی لڑائ لڑتے ہیں 
پراگوین مرتے ہیں

ان کہ مشینی اسلحے سے
جنگلوں میں بولیویا کے 
مرتے مرتے سڑتے ہیں 

---------------------------
پٹرول کے اک قطرے کہ عوض 
اک رہبر مارا جاتا ہے 
جو حد نظر تک جاتی ہے 
وہ دھرتی گروی ہوتی ہے 
جو ان کے آگے اٹھتی ہے 
وہ گردن ماری جاتی ہے 
جو گردن ہاتھ میں نہ آۓ 
زنجیر میں جکڑی جاتی ہے 

جو ان کا سلایا جاگ پڑے 
تو راتوں کی خاموشی میں 
وعدوں کوبھلایا جاتا ہے 
سولی پہ چڑھایا جاتا ہے 
آموس گھنی تاریکی میں 
منحوس رسی خاموشی سے 
طاغوتی عقبت خانوں میں 
مقتدرہ کے ایوانوں میں 
کابینہ بدلی جاتی ہے 
جو ان کا سلایا جاگ پڑا 
وہ پھر سے سلایا جاتا ہے 

اور پھر توایسے لگتا ہے 
سرکار سٹینڈرڈ آئل کا 
ہر بادل پہ ہر ساحل پہ
ہر وادی میں ہر گھاٹی میں 
سب برجوں پہ چوراھوں میں 
ہر گام پہ نام چمکتا ہے 
سٹینڈرڈ آئل کی برکت سے 
یہ دھرتی جگ مگ کرتی ہے

And here is the original Spanish.

Cuando el barreno se abrió paso 
hacia las simas pedregales 
y hundió su intestino implacable 
en las haciendas subterráneas, 
y los años muertos, los ojos 
de las edades, las raíces 
de las plantas encarceladas 
y los sistemas escamosos 
se hicieron estratas del agua, 
subió por los tubos el fuego 
convertido en líquido frío, 
en la aduana de las alturas 
a la salida de su mundo 
de profundidad tenebrosa, 
encontró un pálido ingeniero 
y un título de propietario. 

Aunque se enreden los caminos 
del petróleo, aunque las napas 
cambien su sitio silencioso 
y muevan su soberanía 
entre los vientres de la tierra, 
cuando sacude el surtidor 
su ramaje de parafina, 
antes llegó la Standard Oil 
con sus letrados y sus botas, 
con sus cheques y sus fusiles, 
con sus gobiernos y sus presos. 

Sus obesos emperadores 
viven en New York, son suaves 
y sonrientes asesinos, 
que compran seda, nylon, puros, 
tiranuelos y dictadores. 

Compran países, pueblos, mares, 
policías, diputaciones, 
lejanas comarcas en donde 
los pobres guardan su maíz 
como los avaros el oro: 
la Standard Oil los despierta, 
los uniforma, les designa 
cuál es el hermano enemigo, 
y el paraguayo hace su guerra 
y el boliviano se deshace 
con su ametralladora en la selva. 

Un presidente asesinado 
por una gota de petróleo, 
una hipoteca de millones 
de hectáreas, un fusilamiento 
rápido en una mañana 
mortal de luz, petrificada, 
un nuevo campo de presos 
subversivos, en Patagonia, 
una traición, un tiroteo 
bajo la luna petrolada, 
un cambio sutil de ministros 
en la capital, un rumor 
como una marea de aceite, 
y luego el zarpazo, y verás 
cómo brillan, sobre las nubes, 
sobre los mares, en tu casa, 
las letras de la Standard Oil 
iluminando sus dominios.