Friday, March 11, 2016

Seeing A Picture On Facebook/ A Poem

Seeing A Picture On Facebook
A Poem






In 1980's I was part of an organization called Proud Pakistani, a group of young men and women with a commitment to make a change . In 1988 I moved to the USA. Recently I saw a picture on Facebook. Thanks to Muhammad Ahmad Abdullah for the photo.

https://www.facebook.com/photo.php?fbid=565726783563298&set=t.100003779457312&type=3&theater

It took me back to those times. It was a time of dreams, aspirations, friendships, commitments, disappointments and betrayals. All these thoughts culminated in this poem. 

I hope that readers able to relate to it. 

Thanks to Rafiuddin Raz Sahib for his guidance in rectifying poetic errors. 




فیس بک پر اک تصویر دیکھ کر

اس  جہانِ مجاز کے  پرچے
ہر ہتھیلی میں پھڑپھڑاتے  ہیں
روز و شب اس میں دوستانِ من
نت نئی سرخیاں لگاتے  ہیں

رنگ و رعنائ کے جریدے میں
ہر گھڑی اک نئی عبارت ہے
کوئ  سنجیدگی  میں ڈوبا ہے
کہیں معصوم سی شرارت ہے

یونہی اک دن ورق پلٹتے ہوئے
ایک تصویر آ کے  ٹھہر  گئی
لے گئی مجھ کو اس زمانے میں
روز ہوتی تھی  اک  امنگ نئی

ایک گاڑی ہے چند لڑکے ہیں
ایک  صحرا ہے قحط سالی  ہے
ایک  تنظیم  کا  حوالہ  ہے
نام  میں کام  میں  نرالی  ہے

اے وطن ہم نے بھی گزارا ہے
وہ زمانہ کہ  خواب بنتے تھے
کہ  معطر رہے  تیرا  جوبن
مرغزاروں سے پھول چنتے تھے

عہدِ ناداں کے خواب ہوتے ہیں
خواہشِ  سرعتِ جواب لئے
ان کی  تعبیر  ہو  تو  سکتی ہے
شرط  ہے وہ  ہزار سال  جئے

ایک احساسِ فرض کے ہاتھوں
تیرا   چہرہ   سنوارنا    چاہا
ہم نے ورژے میں جو کمایا تھا
وہی   قرضہ   اتارنا   چاہا

کسی لاغر کو  آسرا  دے  کر
کسی  بیمار  کو  دوا  دے  کر
کسی  مجبور  کو عصا  دے  کر
کسی مغرور  کو  دعا  دے  کر

وہ  جو  مثلِ ازل اندھیرا تھا
اسے   وہ  ہی   پکارنا  چاہا
اور جب بات بن نہیں پائی
ہم نے  سورج  نکالنا  چاہا

ہم مویشی چرانے  بیٹھ گئے
دل میں تصویرِ وصل  ِ ہیر لئے
پر وہاں   انتظامِ  کیدو تھا
نفسِ کینہ  زبانِ  شیر  لئے

کچھ  جواں فکر  نوجوان ملے
وہ  جیالے شریکِ خواب بنے
ان سے میں نے بھی حوصلہ پایا
اور نئی وسعتوں  کا  باب بنے

کچھ زمانے نے مجھ کو سمجھایا
اور کچھ  راستہ  طویل  ہوا
جو مرے حوصلے بڑھاتا  تھا
رہ بدلنے کی  وہ  دلیل  ہوا

فہرسِ رنج گر ہے طولانی
گریہَ  چند  لا محالہ ہے
زخم جو آ پ نے لگائے ہوں
ان کا درماں ہے نے مداوہ ہے

وقت   اپنا  اثر  دکھاتا  ہے
یونہی  منظر  بدلتا  جاتا  ہے
دھندلکےمیں سجھای کیا دے گا
یاد رکھنابھی بھول  جاتا  ہے

جس کو  ہم  اپنا  عہد سمجھتے تھے
وہ زمانہ  گزار    آیا  ہوں
اور وابستگی ہے غیروں سے
کل میں اپنا تھا اب پرایا ہوں

کام سے جب فراغ ملتا ہے
بزمِ  آوارگی  سجاتا  ہوں
ہے  جہانِ  مجاز کا   پرچہ
ورق پیہم پلٹتا  جاتا  ہوں

کیا  خبر  جادئہ  تحیّر  میں
کوئی  ایسا  مقام  پھر آئے
کوئی تصویر آ کے رک جائے
اور مجھ کو وہیں پہ لے جائے

وہ جو اک وقت ہم پہ گزرا تھا
تیرا   چہرا   سنوارنا   چاہا
اور  ورثے میں جو کمایا  تھا
وہی   قرضہ   اتارنا   چاہا

اپنے موروثی اس فریضے سے
اپنا حصہ نکال  آیا ہوں
بوجھ اسلاف کا اٹھانا تھا
اپنے بچوں پہ ڈال آیا ہوں

ان کو تھا مان اس رفاقت پر
بیچ  پیچیدہ  ایک  موڑ  آیا
وہ  مجھے  مثلِ رہ  نما   سمجھے
میں انہیں  راستے میں چھوڑ آیا

ناصر گوندل
حلقہ اربابِ ذوق
نیو یارک
 2016،  6  مارچ