Sunday, October 11, 2020

شہر کرشمہshehr e karishma

شہرِکرشمہ


چرچا تھا اس نگر کا فقیدِالمثال ہے
تعبیرِ ہائے خواب میں حدِکمال ہے

زرخیز ہے زمیں تو فضا سازگار ہے
ہر غنچہِِ خیال نویدِبہار ہے

محنت کرو گے اور ثمر اس کا پاوٗ گے
جو بھی تمہارا حق ہے اسے نہ گنواوٰگے

حق میں برابری ہے ہر اک خاص و عام کی
ہے سلطنت یہیں جو کہیں ہے عوام کی

قسمت یہاں کھلے گی اسے آزمایٗے
اس کو وطن بنا کے وطن بھول جایےٗ

ایسی کشش سے کھینچا کہ ہم آ گئے یہاں
تھوڑا سا کشت کاٹا تو پھر ہو گئے رواں

ہم نے بھی اک زمین کا ٹکڑا کما لیا
سر پہ مکاں بنانے کا سودا سما لیا

بنیاد کھودنے کو جہاں پھاوڑے چلے
بد حال و بے کفن کئی لاشے وہاں ملے

ویسے حقیقتاََ یہ چھپایا نہیں گیا
مجھ کو لگا کہ مجھ کو بتایا نہیں گیا

میرا قصور تھا کہ میں اس سے تھا بے خبر
جائے وقوعِ جرم ہے کہتا ہوں جس کو گھر

میرے مکاں کا قصہ نہیں یہ سبھی کا ہے
اپنا سمجھ رہے ہیں وہ رقبہ کسی کا ہے

تختی لگا رہا ہوں کہ میری ہے یہ زمیں
بے گھر ہوئے یا مارے گئے اولیں مکیں

یہ کس طرح مسطح ہوا دامنِ دمن
مزدورِ مغویانِ فریقہ تھے کوہکن

اس سطحِ مرتفع کو جو ہموار کر گئے
کتنے یہاں پہ جبرِ غلامی میں مر گئے

میں جس میں رہ رہا ہوں مقدس مقام ہے
ہر اک قدم یہاں پہ رہینِ غلام ہے

ایسے نہیں ہے شہرِ کرشمہ کمال کا
شامل ہے اس میں خون پسینہ بلال کا

ناصر گوندل
حلقہِ اربابِ ذوق، نیو یارک
آن لاین اجلاس
اتوار11/اکتوبر2020؁ء




 

1 comment: