بین اسطور
ڈاکٹر شاہد یوسف کے نام
جن کی ایک ای میل سے مرکزی خیال ماخوذ ہے
جب تک حساب کرتا
کہ وہ کہاں سے آیا
وہ جس طرح اچانک
نکلا یہیں کہیں سے
جمِ غفیر میں گم
ویسے ہی ہو گیا وہ
کاندھوں پہ اس کے تھیلا
ڈھلکا تھا ایک جانب
چسپاں تھی اک عبارت
لکھا تھا کہ ’پڑھو جو
سطروں کے درمیاں ہے‘
کوشش بہت ہی کی کہ
میں بھی پڑھوں کے کیا ہے
بین اسطور لیکن
ہر بار یہ ہی دیکھا
خالی تھا
ان دکھا تھا
سطروں کے درمیاں جو
کچھ بھی لکھا ہوا تھا
بین اسطور جانے
سےپبیشتر ذرا سا
کیوں نہ میں دیکھ لیتا
سطروں میں کیا لکھا ہے
بین اسطور کچھ بھی
لکھا ہوا نہیں ہے
لکھا ہوا جو ہوتا
اک اور سطر ہوتی
اور پھر میں سوچتا کہ
وہ کیا ہے جو لکھا ہے
وہ سطر جو لکھی ہے
اور وہ جو ان دکھی ہے
اور ان کے پیچ میں جو
خالی جگہ بچی ہے
کیا بات کہہ رہی ہے
ناصر گوندل
حلقہِ اربابِ ذوق، نیو یارک
اتوار، ۲۸ مارچ
2021