Saturday, November 5, 2022

دیوانِ شمس تبریز۔ مولانا رومی۔ نعیم راٹھورDeewan e Shams Tabrez by Rumi, An article by Naeem Rathore


دیوانِ شمسِ تبریز


مختصر سوانح وتعارفِ دیوانِ غزلیات
مولانا جلال الدین محمد رومی



مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم
تا غلامِ شمسِ تبریزی نہ شد



پرہ فیسر نکلسن نے ۱۸۹۸؁د میں اس دیوانِ پر تنقید و تجزیہ پر مقالات اپنی ایم اے کیمبرج یونیورسٹی کی سند کیلئے شائع کئے۔ آپ لکھتے ہیں کہ کئی مقتدر اَدباُ اور دوسرے لوگ، نظم و نثر بلکہ ضخیم کتابیں بھی دوسرے ادیبوں یا فرضی ہستیوں کے نام سے معنون کرتے ہیں۔ اسکی مختلف وجواہات منجملہ سَبُ و شَتَم، تضحیک و تشنیع یا خوشامد و مطلب براری وغیرہ ہیں مزید یہ کہ ایک منفرد تخلص کا استعمال مشرقی شاعری کی قدیمی روایت ہے۔ یہ نام کسی خاص مسلک ، حلقئہ ارادت، خوشامد یا جائےسکونت سے وابستگی کا مظہر ہوتا ہے۔ مگر زیرِ نظر دیوان مطلقاً شمس تبریز کی تحریر یا تخلیق نہیں بلکہ تمام تر مولانا جلال الدین محمد رومی ؒ کی تصنیف ہے اور ان غزلیات کا مجموعہ ہے جو آپ نے اپنے مرشد کے حضور پیش کیں یا بطور مریدِ باصفا اپنے آقا کے اوصافِ حسنہ کے بیان میں کہیں. مزید یہ کہ جہاں مقطع میں تخلص باندھا گیا ہے تو صرف شمسِ تبریزؒ ہی مذکور ہیں  


جلال الدین رومی کا تعارف عموما" فقر و تصوف کے حوالے سےکیا جاتا ہے مولانا شبلی اپنے سوانح میں انھیں متکلمین کے زمرہ میں رکھتے ہیں اور علم کلام میں امام غزالی ؒ کا جا نشین مانتے ہیں۔ آپکی مشہورِ زمانہ اور پر از معارف و حقائق تصنیف، مثنوی کے بارہ میں مولانا جامیؒ فرماتے ہیں:

مثنویِ۔ معنویِ۔ مولوی
ہست قرآن در زبانِ پہلوی

مگر فارسی ادب میں انکا مقام اور عالمی لٹریچر میں انکا مرتبہ انکے دیوان سے بھی متعلق ہے۔ مولانا کا تمام کلام فارسی میں ہے لیکن انکا روحانی اتباع اور طریقت کا ورثہ ممالکِ ترکیہ میں پروان چڑھا ۔ فرقہ مولویہ اور دائروں میں گھوم کر رقص کرنےوالے درویشوں کے تکیے اور ذکر و اذکار کی خانقاہیں ہر شہر میں ملتے ہیں ۔ متعدد جگہ آپکی شبیہ زینتِ دیوار ہے جسکا عنوان عموماً "یا حضرت مولانا" ہوتا ہے بالفاظِ دیگر آپ ترکی کے داتا گنج بخش،یا نظام الدین اولیاءؒ یا "پیٹرن سینٹ ہیں"
جلال الدین محمد ؁ ۱۲۰۶ میلادی میں ملک خراسان کے شہر بلخ میں شیخ بہاُوٗ الدین ولد کے ہاں پیدا ہوئے ۔ سلسلہ نسب حضر ت ابو بکر صدیقؓ سے ملتا ھے ااور ننھیال علاوٗ الدین خوارزم شاہ کا خاندان ہے۔ شیخ بہاوٗ الدینؒ ولد اپنے وقت کے جید علماُ میں سے تھے مدرسہ اور خانقاہ کے علاوہ مساجد میں خطابت اور عوام الناس کی رہبری آپکی مصروفیات میں سے تھیں۔اشاعرہ مسلک اور امام غزالیؒ کے متبع اور فرقہ معتزلہ کے سخت مخالف جس کے سر براہ امام فخر الدین رازیؒ بھی بلخ ہی میں ہی قیام پذیر تھے چونکہ بادشاہ یہی مسلک رکھتا تھا اس لئے چپقلش لازم تھی بہت سے معرکوں کے بعد شیخ بہاُوٴ الدین ولد نے نقل مکانی میں ہی مصلحت سمجھی اور ؁۱۲۱۳ میں جب مولانا چھ برس کے تھے آپ عازم سفر ہوئے نیشا پور میں دو سال ٹھیرے اور یہان خواجہ فرید الدین عطار رح سے ملاقات ہوئی آپ نےاپنی تصنیف . مثنوی اسرار نامہ. اور بعض روایتوں میں کتاب. منطق الطیر. ہونہار طفل کوعنایت فرمائیں۔ اسی تعلق 
کو آپ نے یوں قلمبند کیا 

عطار روح بود او سنائی دو چشمِ او
ما از پئے سنائی او عطار آمدیم

مقاماتِ مقدسہ پر حاضری دیتے ہوئے بغداد پہنچے اور وہاں لمبا عرصہ رہے۔ مناسب ہے کے اس زمانہ کے سیاسی حالات کا جائزہ لیا جائے۔ افغانستان، خراسان اور وسط ایشیا میں غزنوی اور غوری دور کے بعد اب خورارزم شاہی حکومت پر سلطان محمد علاٴوالدین تخت نشین تھا ؐ مگر مشرق سے قہرِ خداوندی کی آندھی منگول خانہ بدوشوں اور انکے سردار چنگیز خان کی صورت میں ابھی اٹھنے والی تھی بغداد میں نام نہاد عباسی خلافت اور دمشق میں ایوبی سلطنت قائم تھی۔ موجودہ ترکی اور انا طولیہ میں سلاجقہ حکمران تھے یہ علاقہ ایک زمانہ تک بازنطینی یا رومی عملداری میں رہا اور اس وجہ سے اس سلطنت روم کہا جاتا تھا۔ سلجوقی حکمرانوں میں سب سے ممتاز اور عظیم علم دوست اور رحمدل سلطان علاوؐالدین کیقباد اس وقت بادشاہ تھا

شیخ بہاوؐالدین ولد کی بلخ سے روانگی اور بغدا وغیرہ کے قیام کے دوران ہی سلطان محمد علاؐوالدین خوارزم شاہ کی بد حکمتی کی وجہ سے بلخ اور خراسان منگولوں کے ہاتھوں تاخت و تاراج ہو چکے تھے ۔ 

نہ مہرے باقی نہ مہرے بازی
جیتا ہے رومی، ہارا ہے رازی

سلطان علاوؐالدین کیقباد نے شیخ کو اپنے علاقوں میں مستقل قیام کی دعوت دی۔ آپ زنجان اور لارند ٹھرتے ہوئے آخر قونیہ پہنچے۔
 
مولانا جلال الدین اس وقت اٹھارہ سال کی تھے قونیہ کی وطنیت کے واسطے سے آپکو مولائے روم یا مولوی رومی سے یاد کیا جاتا ہے گو آجکل ایرانی ادیب انھیں بلخی کہتے ہیں۔اس دوران مولانا کی تعلیم انکے والد کے مشہور مرید اور شاگرد برہان الدین محقق ترمذی کے ذمہ تھی۔ شیخ بہاوؐالدین نے قونیہ میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا اور انکا حلقہء ارادت بشمول شاھی خاندان وسیع تر ہوتا گیا۔ شیخ بہاوؐالدین نے ؁۱۲۳۰ م میں وفات پائی اور چوبیس کی عمر میں مولانا اپنے مرحوم والد کے جا نشین ہوئے۔ آپ نے مدرسہ کے انتظام، مسجد کی خطابت اور درس و تدریس اور مباحث علمی کیلئے اپنے آپ کو پوری طرح قابل نہ سمجھا اور سب کام اپنے استاد برہان الدین محقق ترمذی کے سپرد کیا اور خود پہلے دمشق اور پھر حلب میں قرآن، حدیث فقہ اور معقول علوم میں دسترس حاصل کی ۔ استاد سے علومِ باطنی کی تربیت کے بعد والد کی مسند پر متمکن ہوئےاور چالیس برس کی عمر تک قونیہ کی عملداری کے صوفی منش پرہیزگار عالم با عمل بزرگ گنے جاتے تھے بقول مولانا شبلی مولانا وعظ کہتے ، فتاویٰ لکھتے اور سماع اور موسیقی سے سخت احترازبرتتے تھے۔ ہمعصر شیوخ اور علماُ کی نظر میں اپنے وقت کے قطب اور ابدال تھے

مولانا سینتیس یا اڑتیس برس کے تھے کہ مشیتِ خداوندی سے اس پر سکون بحر کی موجوں میں اضطراب اور طوفان تبریز سے اٹھا اور انکا آشنا ہوُا۔ ایک مجذوب فقیرشمس تبریزی کی صورت میں آیا اور اس نے محمد جلال الدین کی زندگی کے ہر پہلو میں انقلاب برپا کیا۔ 

مولانا اور شمس کی اولین ملاقات کے بارہ میں موُرخین میں اختلاف ہے۔ عموما" کوئی خارقِ عادت واقعہ مرشد و مرید کو ملاتا ہے یا کوئی کراماتی معجزہ حجاب اٹھاتا ہے۔ قرین عقل مولاناکے شاگرد ، سپہ سالار کا بیان ہے کہ شمس جو بابا کمال الدین جندی کے مرید تھے اور فقیرانہ شہر بہ شہر ہمدم و ہم نفس کی تلاش سرگرداں رہتے تھے بالآخر قونیہ پہنچے اور موقع پانے پرمولانا کی مجلس میں سوال کیا کہ حضرت با یزید بسطامیؒ کے ان اقوال میں کیسے مطابقت ہو سکتی ہے کی ایک طرف تو آپ نے کبھی خربوزہ نھیں کھایا کیونکہ سیرت میں بیان نہیں ہوا کہ رسولِ مقبولﷺ نے تناول فرمایا یا نہیں اور دوسری طرف آپ کا مستند قول ہے کہ سبحانی، ما اعظم شانی، کہ میں پاک ہوں اور کون ہے جس کی شان مجھ سے زیادہ ہے۔ جبکی ختمی مرتبت ﷺ دن میں ستر مرتبہ استغفار فرماتے تھے. جواب یہ ہے کے رسولِ مقبولﷺ کو اللہ جل شانہ کا وعدہ ہے: وَ للآخِرَ ة خَیرَاً لَکَ مِنَ الاولیٗ کہ آپ کیلئےہر بعد میں آنے والا وقت یا امر گذرے ہوئے وقت یا امر سے بہتر ہوگا۔ پس ہر روز آپ تقرب الٰہی کے منازل اتنی تیزی سے طے کرتے کہ گذرے ہوئے وقت کا مرتبہ اتنا پست نظر آتا کہ استغفار فرماتے۔ جبکہ بایزیدکا رتبہ اگرچہ نسبتاً بلند تھا مگر انہیں اپنے سے بالا مقامات کی اطلاع نہ تھی۔ اور اس درجہ کی عظمت کےاثر کے سبب ان سے وہ الفاظ ادا ہوئے ، 

اس ملاقات کے حوالہ سے بہت سے واقعات مذکور ہیں جنکا لب لباب یہی ہے کہ مولانا کوشریعت اور طریقت کے بعدمعرفتِ اورحقیقت سے آشنائی شمسِ تبریز کی صحبت سے ہوئی۔ ملاقات کے بعد مولانا وجد میں آگئے اور سب کچھ چھوڑ چھاڑ شمس کے ساتھ تخلیہ میں چلے گئے۔ لمبے عرصہ تک اس حالت میں رہے ۔ اس دوران تمام درس و تدریس معطل، مجالسِ عرفان بند، میل جول ختم، اور فرائض سے بظاہِر اجتناب۔موسیقی اور سماع سے جنون کی حدتک رغبت۔ شمس نے مولانا کے دل میں عشق کی آگ جلائی اور خود بھی اس میں بھسم ہو گئے، مولانا خود اپنی حالت کے بارہ فرماتے ہیں

بخدا خبر نہ دارم چونماز می گذارم
کہ تمام شد رکوعےکہ امام شد فلانے

مولانا کے خاندان اور دوسرے متعلقین کو تشویش ہوئی اور شہر میں شورش بڑھی کہ ایک بے سرو پا دیوانہ نے مولانا پر جادو کر دیا ہے۔ قریبی دوستوں اور بہی خواہوں نے شمس پر دباوٗ ڈالنا چاہا اور شمس نے مولانا سے رخصتی کی اجازت چاہی جواب میں یہ شعر کہے:


بشنیدہ ام کہ عزمِ سفر می کنی مکن
 مہرِ حریف ویارِ دگر می کنی مکن

اے محبوب سنا ہے کہ تیرا کہیں سفر کا ارادہ ہے، حریف سے محبت اور کسی دوسرے سے دوستیْ؟ ایسا نہ کر

تو در جہاں غریبی او غربت نہ دیدہُ۔
 قصدِ کدام خستہ جگر می کنی مکن

تو یہاں بیگانہ ہے اور غربت کی صعوبت نہیں جانتا، اب کسی اور خستہ جگر کو اپنے دام میں مت لے

اے مہ کہ چرخ زیر وزبر از برائے تست۔
 ما را خراب وزیر وزبر میکنی مکن

اے کہ جس کے لئے آسمان زیرو زبر ہوتا ہے، تو ہمیں زیر و زبر کر رہا ہے، ایسا نہ کر

اے بر تر از وجود وعدم پائیگاہِ تو۔
 این لحظہ از وجود گذر میکنی مکن

تیرا مقام وجود وعدم سے ورا ہے، مگر اس وقت تو وجود سے بذر رہا ہے، ایسا نہ کر

ما خشک لب شویم چو تو خشک آوری۔
 چشمِ مرا بہ اشک تر میکنی مکن

تیری خشک روی سے ہمارے لب خشک ہو گئے اور ہماری آنکھیں اپنے غم میں پر نم کر رہا ہے ، ایسا نہ کر

شمس نے جانے کا ارادہ ملتوی کیا مگر شماتتِ اعداء میں کمی نہ آئی۔ بلآ خر رات کے وقت دمشق کی طرف نکل گئے۔مولانا نے فراق کا سخت اثر لیا اور بالکل گوشہ نشین ہو گئے۔ میل ملاقات ترک کی اور ہمہ وقت رقت سے بھرے ہوئے اشعار کہتے ہوئے ایک ستون کے گرد گھومتے رہتے۔ مرید ان اشعار کو لکھ لیتے۔ دیوان کا تہائی حصہ اسی دوران کہا گیا۔ کچھ عرصہ بعد شمس نے دمشق سے مولانا کو خط لکھا،

رسید مژدہ بہ شام است شمسِ تبریزی
چہ صبحہا کہ نیاید اگر بہ شام بود

شام یعنی دن ڈھلنے اور ملکِ شام کا تعلق خوبصورتی سے باندھا گیا ہے

خبر ملنے پر آپ کے متعلقین سخت نادم تھے کہ اس روحانی رشتہ میں حائل ہوئے۔ قرار پایا کہ مولانا کے فرزند، سلطان ولد، ایک قافلہ کی سربراہی میں دمشق جائیں اور شمس کو واپسی پر آمادہ کریں۔ایک پیشکش کے ساتھ مولانا نے یہ اشعار ارسال کئے:


بروید اےحریفاں، بکشید یارِ ما را۔
 بمنم آورید حالا، صنمِ گریز پا را

اے دوستو جاوُ اور میرے محبوب کو واپس لاوُ، کسی بھی طریقہ سے
 
اگر او بہ وعدہ گوئید، کہ دمِ دگر بیاید،۔
 مخورید مکرِ او را، بفریبد او شما را

اگر دہ کچھ دیر بعد آنے کا وعد ہ بھی کرے تو اسکے فریب میں نہ آنا ، وہ صاف دھوکہ دے رہا ہے

بہ بہانہ ہائے شیریں،بہ ترانہ ہائےموزوں،۔
 بکشیدسوئےخانہ،مہ خورشید خوش لقا را

خوشامد سے، میٹھی باتوں اس چاند جیسی صورت کو گھر کی طرف لے آنا


شمس وفد کے ساتھ واپس قونیہ پہنچے مولانا نے شہر سے باہر آکر استقبال کیا اور اپنے گھر کے سامنے اقامت گاہ بنوائی۔ راز و نیاز اسرار و معارف کا سلسلہ ازسرنو شروع ہوا اور ذوق و شوق کی صحبتیں رہیں۔ یہ غزل اس وقت کی یادگار ہے:

بگیر دامنِ لطفش کہ ناگہاں بگریزد۔
 ولے مکش چو تو تیرش کہ از کماں بگریزد

اسکے دامنِ لطف کو مت چھوڑ کہ وہ ناگہاں نکل پڑے گا، مگر تیر کی طرح بھی مت کھینچ کہ کماں سے نکل جائیگا

در آسمانش بجوئی، چو مہ در آب بتابد۔
 در آب چونکہ در آئی بآسماں بگریزد

اسے آسمان میں ڈھونڈوگے تو وہ پانی میں چاند کی طرح چمکے گا، اور اگر پانی میں جاوُ گے تو وہ آسمان میں ملے گا

ز لا مکانش بجوئی نشاں دہد بمکانت۔ 
چو در مکانش بجوئی بہ لا مکاں بگریزد

اگر لا مکا ں میں تلاش کروگے تو اپنے مقام کا پتہ دیگا، اور جب وہاں ڈھونڈوگے تو لا مکاں کو نکل جائیگا

از این و آن بگریزم ز ترس نہ زملولی۔
 کہ آن نگارِ لطیفم زاین و آن بگریزد 

میں ادھر ادھر کی باتوں سے سے گھبراتا نہیں مگر ڈرتا ہوں کہ کہیں وہ حسن کی دیوی ادھر ادھر کی باتوں سے ناراض نہ ہو جائے


اسی دوران شمس رشتئہ ازدواج میں منسلک ہو گئے مگر مولانا کےمتعلقین کی شمس سے کدورت بڑھتی رہی یہاں تک کہ آپ دوبارہ غائب ہو گئے اور تلاشِ بسیار پر بھی انکا سراغ نہ مل سکا۔ بعض روایتوں میں انکےقتل کیئے جانے بھی کا ذکر ہے جسکی ذمہ داری مولانا کے دوسرے بیٹے، محمد علاٴوالدین کے سر پہ ہے۔ اس دوسری گمشدگی سے مولانا نے بہت اثر لیا اور دنیا و مافیہا سے بے خبر شہر میں بازاروں میں مجذوبانہ گھومتے رہتے اور اشعار کہتے جاتے، اس حالت میں دو سال تک رہے غزلیات کامعتد بہ حصہ اب ضبطِ تحریر میں آیا۔ مولانا شبلی فرماتے ہیں کہ شاعرانہ جذبات اسی طرح انکی طبیعت میں پنہاں تھے جیسے پتھر میں آگ ہوتی ہے اورشمس کی جدائی گویا چقماق تھی اور شرارے انکی پر جوش غزلیں۔ ایک دن رقص کرتے کرتے صرافہ بازار میں صلاح الدین زرکوب کی دکان سے گذرے جہان وہ چاندی کے ورق بنا رہے تھے۔ زرکوبی کی ہتھوڑی کی مسلسل تھاپ آپکو راس آئی اور اپ وہیں رک گئے اور صلاح الدین ورق کوٹتے رہے۔مولانا کی وحشت دور ہوئی اور فرمایا:


یکے گنجے پدید ٓ آمد ازیں دکانِ زرکوبی
زہےصورت، زہےمعنی، زہے خوبی، زہےخوبی


جس طور شمسِ تبریزی کی صحبت نےؑعشقِ حقیقی اور تلاشِ معرفت کی آگ جلائی بعینہ صلاح الدین زرکوب کی سادہ اور صاف جبلت نے آپکے ہیجان کو سکون بخشا۔ آپ صلاح الدین کو اپنے گھر لے آئے جہاں وہ دمِ آخریں تک رہے ۔ مولانا نے صلاح الدین کی دختر کا عقد اپنے بیٹے سلطان ولد سے کردیا اور بہت تکریم و احترام سے پیش آتے تھے تا کہ متعلقین اور مریدوں میں رتبہ بڑھے اور جان و عزت محفوظ رہیں۔ صلاح الدین مولانا کی صحبت میں پندرہ برس تک جئے۔ مولانا نے اپنے والد کے پہلو میں دفنایا.صلاح الدین کے بعد مولانا، شیخ حسام الدین چلپی کے ندیم و ہمدم بنے اور ان کےاور معین الدین پروانہ کے ایماء پر مولانا نے مثنوی لکھنی شروع کی۔   


ڈاکٹر افضل اقبال مولانا کی زندگی تین ادوار میں تقسیم کرتے ہیں۔ پہلا دورِحصولِ علم اور تربیت جو پیدائش ؁ ۱۲۰۷ سے انکےاستاد شیخ برہان الدین محقق ترمذی کی وفات ؁ ۱۲۴۰ بلکہ شمسِ تبریزی سے ؁۱۲۴۴ میں ملاقات تک ہے۔ دوسرا دور اس انقلابی ملاقات، شمس کے قیام اور غائب ہونے کے بعد صلاح الدین زرکوب کی وفات ؁۱۲۶۱ تک ہے۔ یہ مولانا کا غنائی اور موسیقیت سے لبریز غزلیات کا دور ہے۔ پچاس ہزار اشعار کا دیوان مولانا کے مریدوں نے انکے رقص، سماع اور بے خودی کی حالت میں املا کیا۔ تیسرا دور مولانا کےعظیم کارنامہ، مثنوی کے چھ دفاتر لکھنا ہے جو ایک علیحدہ مضمون ہے اور یہ کام آپکی وفات ؁۱۲۷۳ تک جاری رہا 

محاسنِ کلام

شبلی فرماتے ہیں کہ رومی کے متقدمین میں فارسی شاعری زیادہ تر قصیدہ اور مثنوی تک محدود تھی غزلیات عموماً قصائد کے شروع میں بطور تشبیب لکھی جاتی تھیں۔ پھر غزل علیحدہ صنف قرار پائی مگر مولانا کے زمانہ تک اس میں کوئی ترقی نہیں ہوئی۔صنائع بدائع اور لفاظی بہت مگر جوش و اثر ندارد سوز و گداذ کی ابتدا صوفیاء کے بالطبع شعراء جیسے عطار اور سنائی کے تصوف اور معرفت کو عشق ومحبت کے ملانےسے ہوئی۔ مگر ان حضرات نے بھی مثنوی ،قصاید اور رباعیاں ہی لکھیں اور غزل کی صنف مولانا میں کمال تک پہنچی۔ مولانا کا کلام مدح سے بالکل پاک ہے۔اگرچہ سعدی اور عراقی کا رنگِ تغزل اونچے درجہ کا ہے مگر وہ مدح سے مبرا نہیں۔ مجازی عشق ، ہوس پرستی اور راز و نیاز سے بھرپور مگر دل گرفتگی اور فوری اثر ندارد۔ بڑی بات یہ ہے کہ آپ کا دیوان جوش اور مستی اور بے خودی کے عالم میں لکھوایا گیا کسی نظرِ ثانی کی شہادت نہیں ملتی۔ فرماتے ہیں:

تو مپندار کہ من شعر زخود می گوئم۔ 
تاکہ ہشیارم و بیدار، دمِ یک نزَدَم

تم یہ مت سمجھو کہ میں از خود شعر کہتا ہوں درحقیقت میں ہوش و حواس میں کچھ نہیں کر سکتا


مولانا ثقیل اور غیر مانوس الفاظ استعمال کرنے سے نہیں گھبراتے مگرمصنوعی ترکیبات
سے دور رہتے ہیں۔ ہر ایک غزل ایک خاص حالت کے بیان میں ہے اور ہر ایک شعر الگ نہیں ہوتا۔ مثلاً بے خوابی جو انکی ہمدم تھی کے بارہ میں کہتے ہیں:

دیدہ خون گشت و خون نمی خسپد۔
 دل ِمن از جنوں نمی خسپد

آنکھیں خوں چکاں ہیں اور خون نہیں سوتا۔اور میرا دل جنون سے نہیں سوتا

مرغ و ماہی زمن شدہ حیراں۔
 کایں شب و روز چون نمی خسپد

فضائی اور بحری مخلوق حیران ہے کہ میں شب و روز کیوں نہیں سوتا

عشق بر من فسونِ اعظم خواند
 دل شنید آں فسوں نمی خسپد

عشق نے مجھ پر بڑا جادو کیا اور دل اس سحرسے نہیں سوتا

آسماں خود کنوں زمن خیرہ است۔
 کہ چرا ایں زبوں نمی خسپد
سمان خود آج مجھ سے حیران ہے کہ یہ ذلیل کیوں نہیں سوتا

ایک مرصع غزل جو اپنی ہستی کہ بارہ میں ہے:

چہ تدبیر اے مسلماناں کہ من خود را نمی دانم 
نہ ترسا نہ یہودم من نہ گبرم نہ مسلمانم

نہ شرقیم نہ غربیم نہ بریم نہ بحریم۔
 نہ از کانِ طبیعیم نہ از افلاکِ گردانم

نہ از خاکم نہ از آبم نہ از بادم نہ از آتش۔
 نہ از فرشم نہ از عرشم نہ از کونم نہ از کانم

نہ از ہندم نہ از چینم نہ از بلغار و سقسینم۔
 نہ از ملکِ عراقییم نہ از خاکِ خراسانم

مکانم لا مکاں باشد، نشانم بے نشاں باشد۔
 نہ تن باشد ، نہ جاں باشد، کہ من از جانِ جانانم

الا اے شمسِ تبریزی چناں مستم دریں عالم۔
 کہ جز مستی و قلاشی نہ باشد ہیچ دستانم

اب تک بیان کی ہوئی مولانا کی شاعری کی مثالوں میں میں قدرِمشترک انکاموزوں بحروں اور صوتی اثرات کا بلیغ استعمال ہے۔ انکا خاص آہنگ اور لحجہ ہے جو سامع کی توجہ کھینچتا ہے اور دیر پا اثر رکھتا ہے مولانا کا ارکسٹراا ملاحظہ ہو 


اے مطربِ خوش قا قا، تو قی قی او من قو قو۔
 تو دق دق و من حق حق، تو ہی ہی او من ہو ہو

اےشاخِ درختِ گل، اے ناطقِ امرِ کل۔ ۔
 ۔ تو کبک صفت بو بو، من فاختہ ساں کو کو

محاکات کی ایک اور مثال:

ازاںکہ توبہ ھجور است و بند نپذیرد۔
 غلوِ موج چوں کہسار او غرشِ دریا

توبہ ایک بندھن ہے مگر ایک بند کی پہاڑ جیسی موج اور ٹھاٹھیں مارتے ہوئے دریا کے سامنے کوئی بساط نہیں


مولانا شبلی لکھتے ہیں کہ تصوف کے دو مقامات فنا اور بقا ہیں۔ مقامِ فنا میں خشوع و خضوع مسکینی اور انکسار کی کیفیات غالب ہوتی ہیں جبکہ مقامِ بقا جلال، ادعا، بیباکی اور بلند آہنگی کا مظہر ہے۔ اور یہ صوفیہ کے کلام میں سوائے مولانا رومی کے کہیں نہیں پائی جاتی ٓ آپ نے مرزا غالب کا پسندیدہ شعر لکھا ہے:

بہ زیرِکنگرہُ کبریاش مردانند۔
 فرشتہ صید، پیمبر شکار،و یزداں گیر

دیگر اشعار

حاصلِ عمرم سہ سخن بیش نیست۔
 خام بدم، پختہ شدم سوختم

جبہُ و دستار علم وقیل و قال۔
 جملہ در آبِ رواں انداختیم

از کمالِ شوق تیرِ معرفت
 راست کردہ بر نشان انداختیم

اور یہ غزل بھی اسی طرز میں ہے:

بنمائے رخ کہ باغ و گلستانم آرزوست۔
۔ بکشائے لب کہ قندِ فراوانم آرزوست

گفتی ز ناز بیش مرنجاں مرا، برو۔
 آن گفتنت کہ بیش مرنجانم آرزوست

یک دست جام ِبادہ و یک دست زلفِ یار۔
 رقصِ چنیں میانہء میدانم آرزوست

زین ہمرہانِ سست عناصر دلم گرفت۔
 ۔ شیرِ خدا و رستمِ دستانم آرزوست

دی شعخ با چراغ ہمی گشت گردِ شہر
 کز دیو و دد ملولم و انسانم آرزوست

گفتند یافت نیست بسے جستہ ایم ما۔
 گفت آنکہ یافت می نہ شود، آنم آرزوست

بنمائے شمس مفخرِ تبریز شرقِ عشق۔
 من ھدھدم حضورِ سلیمانم آرزوست


پروفیسر نکلسن اور افضل اقبال صاحب کی رائے میں یہ غزل 
اپنے آہنگ، خوبصورتی، اور ٖفصاحت میں لا جواب ہے

ایں خواجہ را در کوئےما، در گِل فرو رستہ ا ست پا۔
 با تو بگوئم حالِ او، بر خوان اذا جاءالقضا

جبار وار و زفت او، دامن کشاں می رفت او۔
 تسخر کناں بر عاشقاں، بازیچہ دیدہ عشق را

اے خواجہ سر مستک شدی، بر عاشقاں خنبک زدی۔
 مستِ خداوندِ خودی، کشتی گرفتی با خدا

بس مرغ پراں در ہوا، از بامہا فردو جدا۔
 می آئید از چرخِ قضا، در سینہ اش تیرِ بلا


بطور نمونٗہ کلام م ایک مستزاد جو صوفیانہ کلام سنانے والے قوالوں میں مقبول ہے:

ہر لحظہ بشکلے آں بت عیار برآ ٓمد۔ دل برد و نہاں شد
ہر دم بہ لباسِ دگر آں یار بر آمد۔ گہ پیر و جواں شد

خود کوزہ و خود کوزہ گرو خود گلِ کوزہ۔ خود رندِ سبو کش
خود بر سرِ آں کوزہ خریدار بر آمد۔ بشکست و رواں شد

نے نے کہ ہمی بود کہ می آمد و می رفت۔ ہر قرن کہ دیدیم
تا عاقبت آں شکلِ عرب وار بر آمد۔ دارائے جہاں شد

حرف آخر
نکلسن کہتا ہے کہ مولانا کی تخلیقات وہ شاعری نہیں جو وحدت الوجودی قیاس آرائیوں کا لبادہ اوڑھے ہے بلکہ وہ جوشِ ایمان اور اور جذبہ ہے جسکے شاعرانہ اظہار نے مفروضہٗ وحدت الوجود کو ایک مسلک اور طریقت میں ڈھال دیا ہے
کتابیات
Selected poems from Diwani Shamsi Tabrizi by R. A Ni holson
The Life and Works of Jalaudin Rumi by Afzal Iqbal
سوانح مولانا روم از مولانا شبلی نعمانی
                 نعیم احمد عفی عنہ
حلقہ اربابِ ذوق
نیو یارک ۲۹ ستمبر ۲۰۱۹؁







8

Friday, May 20, 2022

ٓٓاصول/Asool

 







ٓٓاصول


ٓاصول توڑنے کے بھی اصول ہوتے ہیں

ورنہ تو ہر وقت ہر جگہ اصول ٹوٹتے پھریں


کوئی بات ہوتی ہے تو اصول بنتا ہے

اس کے بغیر 

موجودہ صورتِ حال برقرار نہیں رہ سکتی


اسے تو برقرار رکھنا ہے

اسی کا نام استقامت ہے

اسی سے استحکام ہوتا ہے


لیکن حالات کی صورت برقرار رکھنے والا 

اگر ضرورت سمجھے تو

اصول توڑا بھی جا سکتا ہے



یہی اک اصول ہے اصول کو توڑنے کا

اس کے علاوہ اور کوئی توجیہ ناقابلِ قبول ہے 

بلکہ قابلِ تعزیر ہے


ضرورت بھی عجب شے ہے

صاحبانِ حال کو مجبور کر دیتی ہے


ضرورت ایجاد کی ماں ہے

اربابِ اقتدار کی داشتہ ہے

اور اس کا نظریہ 

اس کا دلال ہے


ناصر گوندل

حلقہِ اربابِ ذوق، نیو یارک

اتوار ، ۱۵ مئی  ۲۰۲۲؁ء


Friday, April 22, 2022

Leaves of Grass, by Walt Whitman BOOK III Song of Myself 2/اپنا گاون

 


https://soundcloud.app.goo.gl/fEah6

 Leaves of Grass, by Walt Whitman


BOOK III
Song of Myself
 2

اپنا گاون

Houses and rooms are full of perfumes, the shelves are crowded with perfumes,

گھر گھر دےوچ مُشکاں بھریاں
ُٹھُسے عطر درازاں وچ

  I breathe the fragrance myself and know it and like it,
اپنی خوشبو  سُنگناں واں
میں تے اپنے  ساہواں وچ

کیوں نہ  مینوں چنگی لگے
اپنے  آپ دی سچی بو

The distillation would intoxicate me also, but I shall not let it.

جے میں اس دی مشک نتاراں
ہور مرے سر چڑھ کے بو
ہور جو ہووے چل سو چل
ہون نیں دینی میں اے گل

The atmosphere is not a perfume, it has no taste of the distillation, it is odorless,

میری وا  دی باس اے اپنی
ایدے وچ نیں دوجی بو
ایس نوں اینج ای سادہ رکھ
ہورنہ  عنبر وچ دھرو

It is for my mouth forever, I am in love with it,

اے سواد  اے منہ وچ رچیا
ہور نیں چس ایس توں ودھیا

I will go to the bank by the wood and become undisguised and naked,

اک دن شور شرابا چھڈ کے
بار  دا  پھیرا  لاواں  گا
وگدے نیر دے کنڈے بہہ کے
لیڑے کپڑے لاواں گا
الف ننگا  ہو  جاواں  گا

I am mad for it to be in contact with me.

اپنے آپ نوں جھپی پا کے
میں یملا ہو جاواں گا

The smoke of my own breath,

دھونی میرے ساہواں دی

Echoes, ripples, buzz’d whispers, love-root, silk-thread, crotch and vine,

میری واجاں دے ٹکرا
لہراں بحراں، کھسراں پھسراں
بوٹی جڑیاںکیڑ مکوڑ
دو سانگےوچ بیلاں چڑھیاں

My respiration and inspiration, the beating of my heart, the passing of blood and air through my lungs,

آناں جاناں ساہواں دا
دل دی دھک دھک
خون دی چھک چھک
پینڈے اندر  واورولا

The sniff of green leaves and dry leaves, and of the shore and dark-color’d sea-rocks, and of hay in the barn,

ہریل سڑیل پتیاں دی
رلی ملی  خشبو دے چھَٹے
کنڈے اتے کالے وٹے
وچ گداماں سکے پھٹے

The sound of the belch’d words of my voice loos’d to the eddies of the wind,

ہچکی وانگر شور مچاندے
پینڈے اندروں اکھر کڈے

A few light kisses, a few embraces, a reaching around of arms,

مار کے جھپی باہواں پھڑدے
چُمدے، لنگدے

The play of shine and shade on the trees as the supple boughs wag,

وچ رُکھاں دے
دُھپ تے چھاں دی کھیڈ رچاون
ہریاں بھریاں شاخاں ڈولن

The delight alone or in the rush of the streets, or along the fields and hill-sides,

اپنی ہوند دا اپنا چس اے
بھاویں بندا  کلاہووے
یا ہووے او گلیاں راہیں وچ ہجوماں
بھاویں ہووے وچ میداناں وچ پہاڑاں

The feeling of health, the full-noon trill, the song of me rising from bed and meeting the sun.

اے وے مان جوانی دا
چھڈ کے دنیا دے جنجال
دن دھاڑے
منجھیوں اٹھ کے
سنگت کرنی سورج نال

Have you reckon’d a thousand acres much
have you reckon’d the earth much?

سوچ کے ویکھ
ہزاراں ایکڑ
دھرتی  بارے  سوچ کے ویکھ  

Have you practis’d so long to learn to read?

پڑھیا ایں توں لِکھے لیکھ؟

Have you felt so proud to get at the meaning of poems?

فیر  توں مان کریں گا آپ
جد جانے گا
اکھراں اندر جَو ڑاں جُڑیا
لُکا بھید

Stop this day and night with me and you shall possess the origin of all poems,

میرے نال اے رات تے دن دی کھیڈ مکُا
ڈُب کے اپنے اندر توں
کُل کلام دی تانگ لگا
مڈھ تک آپ اپڑ جاویں گا

 You shall possess the good of the  earth and sun,
(there are millions of suns left)

    جو  وی سچ اے
 ایس دھرتی توں سورج  تایئں
(سورج لکھ ہزاراں راہ وچ )
بنھ کے کھیسے وچ توں سب نوں
   ساری کھٹی کھٹ جاویں گا

You  shall no longer take things at second or third hand, nor look through the eyes of the dead, nor feed on the spectres in books,

اج توں بعد کسی وی شے نوں
من ناں پایئں
دوجے تیجے ایرے غیرے ہتھی تایئں
جو مویاں تے سر تے جڑیاں
نیئں تکنا اوناں اکھیا ں رایئں
جو لکھیا اے وچ کتاباں
اوس ڈراوے وچ ناں آیئں
 
You shall not look through my eyes either, nor take things from me,

ناں کچھ لے تو میرے کولوں
ناں ای  ویکھ توں    میری اکھیوں

You shall listen to all sides and filter them from your self

چار چفیرے لوکی بولن
ہر پاسے توں وکھرا رہ
سب دی سن
فیر  اپنی کہہ

Nasir Gondal
New York
20 Apr,2022

ناصر گوندل
نیو ہارک
بدھ20/اپریل2022

Sunday, April 10, 2022

wapsi/واپسی


 
واپسی
احمد سلمان کی نذر

گاؤں سے جو شہر گیا تھا
آج وہ واپس آیا ہے

اس دن جب وہ شہر گیا تھا
ہاتھ میں اس کے 
کچھ زیادہ سامان نہیں تھا
اک کپڑوں کا بکسا تھا
بکسے میں کچھ کاغذ تھے
آنکھ میں سپنا
جیب میں زیور
اک رومال میں گانٹھے تھے

اس گاؤں کے اکثر کوٹھے کچے تھے
بجلی آنے والی تھی
لکڑی کے دروازوں  پہ
بے قفلی زنجیریں تھیں

اس گاؤں کا ہر باشندہ 
اس کے نام سے واقف تھا
اس دن اس کو رخصت کرنے
اس کی گلی کی ہر چوکھٹ پہ
پیار بھری آشائیں تھیں
سنگھی ساتھی پکی سڑک تک
اس کے ساتھ چلے آئے تھے
سولنگ اوپر ٹانگے گاڑی
لاری اڈے آئی تھی

آج وہ  واپس آیا ہے
کاندھوں پہ اک بیگ ہے لٹکا
سونےکی زنجیر گلے میں
انگلی پر انگوٹھی ہے
جیب میں بٹوا  اور رومال ہیں کاغذ کے
اور آنکھوں پر عینک ہے

اپنا گاؤں ڈھونڈ رہا ہے
جس جاہ اس کا گاؤں تھا
آج وہاں پر
شہر نما اک بستی ہے
کچا ایک مکان نہیں
پکا ہر اک کوٹھا ہے
ہر گھر آگے اونچے لمبے
گیٹ لگے ہیں لوہے کے
اور گیٹوں پہ تالے ہیں

اس بستی کے اکثر چہرے 
نہ جانے پہچانے ہیں
اور نہ ہی انجانے ہیں

اس بستی کے کونے پر
چھوٹی ایک پہاڑی پر
جس میں جھنڈ تھے شیشم کے
قبرستان پرانا ہے
جوہڑ جس کا سوکھ چکا ہے
کچی پکی قبروں پر
پتھر نام بتاتے ہیں
کچھ جانے پہچانے ہیں
اس کو دعائیں دینے والے 
اس کوچے کے باسی ہیں

جس جاہ شاید بیلا تھا
آج وہاں پہ باڑ لگی ہے

اپنی گلی وہ ڈھونڈ رہا ہے
جس منزل پہ پہنچ گیا ہے 
اس کا رستہ پوچھ رہا ہے
چوک ہے اک بازار لگا ہے
مسخ شدہ اس شہر نما میں
نہ  وہ  پچھلا گاؤں بچا  ہے 
نہ وہ آدھا شہر بنا ہے

یوں لگتا ہے اس کا گاؤں
جس کو پیچھے چھوڑ گیا تھا
وہ بھی شہر کو چل نکلا ہے

ناصر گوندل
حلقہِ اربابِ ذوق، نیو یارک
اتوار، ۱۰ اپریل، ۲۰۲۰؁ء

Friday, March 18, 2022

Song of Myself/Walt Whitman/Punjabi Translation


https://soundcloud.app.goo.gl/bxWoY
Leaves of Grass Book III  
Song of Myself
Walt Whitman

اپنا ڈھول وجانا  واں
میں آپنے آپ نوں گانا  واں
رنگ جا  توں ویں اوسے رنگے
میں جو رنگ جمانا  واں

لوروں لور میں پھردے پھردے
آپنے آاپ نوں سدیا  اے

سوچاں میں کے کنی چھیتی
ایس گل نوں پہچان گیا
ہریل گھاہ دے تکھے پتے
جیوں ویکھے میں جان گیا

جیویں گھا  اے
ایویں میری جیب دی بوٹی
جند دا بوٹا
رسدا وسدا
ایس دھرتی نے گھڑیا  اے
ایس دے خون  نے بھریا  اے
ایس  ہوا  نال جڑیا  اے

ماں پیو میرے
نانے دادے مامے تائے
جدی پشتی
سب تے سب ایس دھرتی جائے

سینتی ’۳۷ ‘ دے میں گیڑے لگیا
روپ مرے تے جوبن چڑھیا
ناں کوئی مینوں سبق پڑھائے
ناں کوئ رسمی راہ وکھاوئے
جنے چت حیاتی ماناں
جتی نوک سے سب نوں رکھنا

لنگدا ویلا مڑ مڑ آوے
ودھدھا گھٹدا  زور دکھاوئے
ہالے تیکر بھلیا نہی  آں
ڈرنا  واں کے بھل ناں جاوئے

ترچھا پدرا  سدھا  ڈنگا
اوکھا سوکھا بھیڑا چنگا
جنج دا ساحل آوے گا
لنگر کنڈے لاواں گا

جنی میری ست ستیا اے
پورا ٹل لگاواں گا
چیتا رکھیں انحد قدرت
تیری واج لگاواں گا

ناصر گوندل
نیو یارک
5/مارچ/2022
https://www.poetryfoundation.org/poems/45477/song-of-myself-1892-version

Song of Myself (1892 version)

1
I celebrate myself, and sing myself,
And what I assume you shall assume,
For every atom belonging to me as good belongs to you.

I loafe and invite my soul,
I lean and loafe at my ease observing a spear of summer grass.

My tongue, every atom of my blood, form’d from this soil, this air,
Born here of parents born here from parents the same, and their parents the same,
I, now thirty-seven years old in perfect health begin,
Hoping to cease not till death.

Creeds and schools in abeyance,
Retiring back a while sufficed at what they are, but never forgotten,
I harbor for good or bad, I permit to speak at every hazard,
Nature without check with original energy.