Sunday, January 16, 2022

Nazar Ka Dhoka/نظر کا دھوکا/

نظر کا دھوکا

روانہ ایک ہوا آیئنہ خلاوں میں
جو مجھ کو روزِ  ازل کی جھلک دکھائے گا

سنے ہیں میں نے بہت کن فکان کے قصے
کسے خبریہ حکایت نئی سنائے گا

اندھیری رات کا منظر جو آسمان پہ ہے
وہ آج کا تو نہیں مدتوں پرانا ہے

ہر اک ستارہ کسی اور ہی زمانے کا
ہر اک زمانے کا اک اور ہی فسانہ ہے

عجیب ہے شبِ اسرا  مثال یہ منظر
کہ وقتِ کل کا بیک وقت ہو گیا مظہر

جو  ایک ساتھ میرے سامنے منور ہیں
سبھی کسی نہ کسی دور کے پیمبر ہیں

جو روشنی کی کرن آج دیکھتا  ہوں میں
کسے خبر ،ہے وہ روشن ،کہ بجھ گئی اب تک

سویوں کہو اسے تحریفِ غالبانہ میں 
ـَِ’وہ خاک ہو گیا مجھ کو خبر ہوئی جب تک‘

مگر وہ میرے لیے آج اک حقیقت ہے
مجھے تو آج بھی رستہ دکھا رہی ہے وہی

مزارِ ماضی کے بجھتے ہوئے چراغوں نے
ہر ایک رات دکھائ ہے ایک راہ نئی

جو آسماں کی کہانی ہے آسمانی ہے
کہیں زمین پہ ایسا ہی واقعہ تو نہیں

جو دیکھتا ہوں میں وہ آج ہی کا منظر ہے
یہ دورِ ماضی میں پیش آیا سانحہ تو نہیں

سمجھ رہا ہوں جنہیں صاحبِ حقیقت آج
وہ میرے ساتھ کے حاضر حضور مظہر ہیں

یا آسمان کے تاروں کی روشنی کی طرح
گئے زمانے کی فرسودگی کا پیکر ہیں

اک آیئنہ کوئ ایسا تراشنا ہے مجھے
جو مجھ کو میری حقیقت سے آشنا کر دے

وہ حق جو آج ہے برپا وہی دکھائے مجھے
بعیدِ حال ہے جو اس کو ماسوا کردے

یہ بات ایسی بھی ناممکنات میں سے نہیں
بس اس کو محورِ فردا میں ڈالنا ہو گا

اوراس کا رخ مرے  چہرے کی سمت کرنا ہے
مرے ہی عکس سے اس کو سنوارنا ہو گا

وہی دکھائے کا مجھ کو نشانِ حق کیا ہے
دکھائی دیتا ہے جو بھی نظر کا دھوکا ہے

ناصر گوندل
حلقہِ اربابِ ذوق، نیو یارک
اتوار، ۱۶ جنوری ، ۲۰۲۲؁ء  



No comments:

Post a Comment