Friday, March 6, 2020

لال خان کی یاد میں




لال خان کی یاد میں


کمال کے تھے وہ لوگ
جو اس مجاہدے کے نقیب ٹھہرے
عَلم اٹھا کے جو چل پڑے تھے
اندھیر نگری میں روشنی کا سراغ پانے

وہ اس عقیدے میں متحّدتھے
کہ دن چڑھے گا
نہیں تو خود ہی چراغ بن کر 
وہ صبحِ کاذب بپا کریں گے

کئی تو ان میں
غبارِراہ کی مثال بن کر
سحر سے پہلے ہی چھٹ گئے تھے
وہ اس سے پہلے کے کوئی ان کا شمار کرتا 
بکھر گئے تھے

کئی تھے ان میں علم اٹھائے
بغل میں خورشید کو  دبائے
شبِ سیاہ کو مٹا گئے تھے
وہ رات کو دن دکھا گئے تھے

وہ دن چھڑہاتومگر ہوا یہ
  وہ دن بہت ہی خفیف ٹھہرا
اک ایسی آندھی چلی کہ سورج 
مقابلے میں نحیف ٹھہرا
رہا وہ دن تو
مگراندھیرے کے استعارے
میں رات سے بھی ضعیف ٹھہرا

اسے سویرا  قرار  دے کر
بغل میں حساب کے جو چراغ تھے
ان کو ہاتھ لے کر
کئی تھے جو اپنے گھر سدھارے

مگر تھے چند ایک
جانتے تھے
کہ رات اتنی سہل نہیں ہے
یہ روشنی کے جو عکس دکھتے ہیں
دن نہیں ہیں
یہ داشتہایںہیں تاجروں کی
جو بیچتے ہیں
ہزار رنگوں بھرا اندھیرا

وہی تھے چند ایک جو نہ مانے
وہ رات کو رات کہہ سکے تھے
اڑے رہے کہ یہ دن نہیں ہے
اگرچہ لگتا ہے روشنی ہے
مگر سویرا ہوا نہیں ہے
سیاہ جب تک نہ سرخ ہو گا
افق پہ سورج نہیں چڑھے گا

اے رات کو رات کہنے والے
حدیثِ اثبات کہنے والے
ضیا کے ظلمت کدے میں رہ کے
ہمیشہ حق بات کہنے والے

تو اے کہ  تنویر ہائے یثرب
جو لال رستے پہ چل پڑا تھا
لگا کے سب کچھ چلا گیا ہے
کہ اس کی دھرتی کی سرحدوں تک
افق کے اس پار بسنے والے
ہلالِ احمر دکھانے والے
پیمبروں کا پیام پہنجے

تجھے ہمارا سلام پہنچے
تجھے ہمارا سلام پہنچے

ناصر گوندل
نیو یارک
جمعہ6/مارچ2020








No comments:

Post a Comment