Sunday, March 6, 2022

سپید و سیاہ


سپید و سیاہ






برا بھلا تھا حسیں بدنما تھا جو بھی تھا
پڑی جو رات تو سب کچھ چھپا لیا اس نے

لیا ہے گود میں سب کو سیاہیِ شب نے
تضادِ اسود و ابیض مٹا دیا اس نے

ہوا جو دن تو بتدریج دھوپ پڑتی ہے
کھرے بدن سے ردا رات کی اترتی ہے

جو برملا ہے اسے دیکھنا نہیں آساں
بغیر بندِ قبا ہے حقیقتِ عریاں

جو مقتدر ہیں ہوئی ان پہ یہ گراںباری
گھڑا تحفظِ چادر و چار دیواری

جو روشنی میں کسی اور طور چھپ نہ سکے
اسے نظر کی خرابی کا نام دیتے ہیں

گھما پھرا کے حقیقت کو جھوٹ بنتے ہیں
اور اک کفن سی سفیدی سے ڈھانپ لیتے ہیں

سفید جھوٹ جہاں دن کی روشنی میں پلے
زباں دوات میں لپٹی ہوئی گواہی ہے

حریمِ حق پہ جہاں کاغذی ہو پہناوا
مرے قلم کی سیاہی ہی روشنائی ہے
ناصر گوندل
حلقہِ اربابِ ذوق، نیو یارک
اتوار، فروری ۲۷، ۲۰۲۰؁ء



No comments:

Post a Comment