Sunday, February 21, 2021

ghazal/ہونے ‏لگا ‏تھا ‏کچھ



غزل برائے تنقید

ہونے لگا تھا کچھ جو چھپانا پڑا مجھے
ویسے نہیں تو وجد میں آنا پڑا مجھے

اس دل کے کاروبار میں کچھ بھی نہیں بچا
اک نام رہ گیا تھا لگانا پڑا مجھے

یوں مجھ سے ہمکلام مرا آئینہ رہا
نہ روٹھنا پڑا نہ منانا پڑا مجھے

مشکل سے سر اٹھایا تھا کاندھوں پہ اور اب
اس آسماں کو سر پہ اٹھانا پڑا مجھے

میں ہی کھڑا ہوا تھا ترے میرے درمیاں
بندِ انا کو توڑ کے آنا پڑا مجھے

اب کے جو ہم ملے تو ضرورت نہیں رہی
نہ پوچھنا پڑا نہ منانا پڑا مجھے

اتنی بڑھی ہیں ان کی مہربانیاں کہ اب
دشمن کو دوستوں سے بچانا پڑا مجھے

ناصر گوندل
حلقہِ اربابِ ذوق، نیو یارک
اتوار، ۱۴ فروری ۲۰۲۱؁ء

No comments:

Post a Comment